Learn yourself and educate others.

Learn yourself and educate others.

Comment your views

Comment your views

You can post your own blogs.

You can post your own blogs.

We encourage the fourth pillar of State

We encourage the fourth pillar of State

Latest Posts

گدھوں کا رقص

Aleem Arham
اس مملکتِ خداداد کو اللہ نے بہت سی نوازشات عطا کر رکھی ہیں۔ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں مختلف ثقافتیں اور روایات کا دور دورا ہے۔ مگر اس ملک کو اسی کے ناہنجار حکمرانوں اور اشرافیہ نے پستیوں کی جانب دھکیلنا شرو ع کر دیا ہے۔ رحمَن کی عطا کردہ خوبیوں کا بے جا استعمال کر کے ملک کی جڑوں کو کاٹنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسلام کے افق پر چمکنے والے ستارے "ملک پاکستان" کو گندگی اور کرپشن کا اڈہ بنانے میں قلیدی کردار آج کل اور گزشتہ دور کے 'خود ساختہ لیڈران' کا ہے۔ ہماری قوم کو اللہ نے جیسے دوسری بہت سی خصوصیات سے نوازا ہے اسی طرح ان میں عفو در گزر کی نمایاں خصوصیت بدرجہ غائیت پائی جاتی ہے۔ کہنے کو تو یہ خوبی بڑی اچھی ہے اور یقینا کسی کی غلطی کو درگزر کرنا ایک احسن امر ہے اور آپکے اور ہمارے نبی کریم ﷺ میں بھی یہ خوبی پائی جاتی ہے لیکن اس خوبی کا پاکستان کی عوام کو سنگین خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔ حکمرانوں نے شروع ہی سے نا انصافی کو ترویج دیا ہے اور اشرافیہ کا بے جا تحفظ کیا ہے۔ اس ناانصافی کی چکی میں ہمیشہ تڑپتی، ترستی اور بلکتی عوام پستی ہے۔ اگر کھبی کسی انصاف کو فروغ ملا ہے تو اسکا مکمل نام تحریکِ انصاف ہے جسکا اصل انصاف سے تعلق ابھی تک دریافت نہیں ہو سکا۔ اسی دریافت کے حصول کے لیے فواد چوہدری صاحب کو وزیر سائنس بنایا گیا ہے۔ 
 پاکستان میں وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان ہونے کے لیے شرط ہے کہ آپ یا تو شریف ہوں بلکہ نواز شریف ہوں تو زیادہ بہتر ہے، یا پھر آپ کافی عرصے سے زندہ ہوں۔اس کے علاوہ آپ اگر مجسمہِ روحانیت ہیں اور آپکے تعلقات ہوائی و خلائی چیزوں سے استوار ہیں تو اس سے بہتر کوئی شےء نہیں۔ لیکن واضح رہے کہ یہ تمام شرائط آپکو محض کرسی پر بٹھائیں گی آپ کی چلے گی یا نہیں اس بات کی گارنٹی دینے سے ادارہ قاصر ہے۔ بہرحال ان شرائط کا پورا ہونا اسی طرح لازم قرار پایا ہے جیسے پنجابی فلم میں رقصِ بیہودہ کا ہونا لازم ہے۔ فرق یہ ہے کہ یہی رقص پہلے ۱سال یا چند ماہ باقاعدہ محافل سجا کر کچھ خاص لوگ کرتے ہیں جو کہ محض ایک ڈیمو ہوتا ہے اور پھر یہ رقصِ بیہودہ چار سال یا کچھ کم عرصے کے لیے عوام الناس سے کروایا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ دورانیے کا حتمی تعین ادارہ کرے گا۔ ویسے ہماری پیاری قوم بھی ماہر رقاص ہے۔ 
 رقص کے اس عالمی مقابلے میں اب ایک نئے صاحب بھی ایک نئے نعرے کے ساتھ کوٹھاہائے سلطنت پر آئے ہیں۔ انہوں نے اس رقص کے کاروبار کو مزید جہتوں کو روشناس کروایا ہے۔ ان کا یہ فلسفہ ہے کہ یہ رقص دراصل پروفیشنل لوگوں کا کام ہے سو انہیں سے کروانا چاہئے۔ اس مقصد کے لیے باقاعدہ انہوں نے محافل بھی سجا رکھی ہیں۔ خیر پاکستان کی عوام اور حکمرانوں کی مثال ایک گدھا گاڑی اور اس کے کمہار کی سی ہے۔ حکمران نامی کمہار اس گاڑی پر بیٹھا گدھے کو چھانٹے کی مدد سے کنٹرول کر رہا ہے اور اب اس گاڑی پر قرضوں کا توڑا بار بار لادا جا رہا ہے۔ اب تو دو ہی کام ہو سکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ گدھا گر جائے یا پھر گدھا اگلی دلتی اٹھالے جس میں گدھے کے گرنے کے زیادہ امکانات ہیں۔ بہرحال دونوں صورتوں میں نقصان کمہار کا ہی ہے مگر انکو کون یہ بات سمجھائے؟ سچ یہی ہے کہ یہ حکمران کبھی عوام کو رقاصا بناتے ہیں تو کبھی گدھا۔ قرضوں کا حجم جی ڈی پی کا %78ہو چکا ہے مگر عوام یہ پوچھتے ہیں کہ یہ جی ڈی پی کیا ہے اور اسے کس کے ساتھ کھاتے ہیں؟ مجھے اب یہ تو نہیں پتا کہ اسے کس کے ساتھ کھاتے ہیں مگر یہ ضرور پتا ہے کہ اسے صرف حکمران ہی کھاتے ہیں۔ اللہ تعالی ہماری قوم اور ہمارے پاکستان کے لیے سب بھلا کرے۔ آمین
 ُُپاکستان زندہ آباد

!تُو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے

Aleem Arham
  
٦مارچ،  ۲۰۲۰ء مزاح کی دنیا کا المناک دن تھا۔ دوپہر کے وقت ٹی وی سکرینیں اچانک نوحہ پڑھنے لگی تھیں۔ سب حیران تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ یہ کیسی صدا ہے جو سیدھا دِلوں کو چیر رہی ہے؟ جمعہ کو فضاء میں اللہ اکبر کی گونج منظر میں مزید غم بھرتی چلی گئی۔

حادثہ یہ تھا کہ کامیڈی کی دنیا کا بے تاج بادشاہ ''امان اللہ خان '' راہیِ ملکِ عدم ہو چکا تھا۔ مزاح بکھیرنے والے کو  قدرت نے روح پوش کر دیا تھا۔ تمام سکرینیں اسکے مزاح بھرے جملوں سے گونج رہی تھیں۔ اس کا  وہی معصوم چہرہ جس میں کمال کی دانشمندی تھی۔ اسے دیکھ کر لگتا نہیں تھا کہ یہ شخص ہم سے دور بہت دور جا چکا ہے۔ ہر بڑے فنکار نے اسکو اشکبار آنکھوں سے یاد کیا۔ ''آج مزاح کی موت ہوگئی۔'' سہیل احمد کے یہ الفاظ بات کا خلاصہ تھے۔

کچھ ایسے بد نصیب بھی تھے جو اسکی صلاحیتوں اور شہرت کے محلات کی دیواروں کو نیچا کرنے پر تُلے ہوئے تھے  اس کا قد ماپا جا رہا تھا۔نا جانے کیسے کر رہے تھے یہ سب وہ لوگ۔ مگر یہ تو خاص لوگوں کی بات ہے۔ میں عام لوگوں کا منتظر تھا۔ جو امان اللہ کے مخاطب تھے۔ مگرر اوہو! اسکا مخاطب تو آج بھی غریب ہے۔ اس کا مخاطب تو ابھی بھی دو وقت کی روٹی کو ترستا ہے۔اس عام بندے کی زندگی میں اتنے مسائل ہیں کہ یہ کسی کے جانے کا غم منانے کی فرصت بھی نہیں رکھتا۔ اس سچائی نے امان اللہ کے جانے سے زیادہ افسوس دیا۔

 ایسے ہی لمحات گزرتے گئے۔ اسکی تصاویر آنکھوں کے آگے گردش کرتی گئیں۔ کسی نے ایک ویڈیو انٹرنیٹ پر ڈالی جسے دیکھ کر آنکھوں کے تمام بندھ کھل گئے۔ شہنشاہِ مزاح کی اپنی آواز اور منطر میں اسکی ننھی شرارتیں۔ وہ نوجوان بڑھاپا۔ وہ قسمت کے تھپیڑے اور رب کیعطائیں۔ امان اللہ جیسے اپنی لیے ہی کہہ رہے ہوں

       تُو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے      
یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے

   اپنی پہلی یوٹیوب ویڈیو امان اللہ خاں صاحب پر بنائی۔ بہت سے لوگوں نے دیکھی۔ ہر فرد نے شہنشاہِ مزاح کو اپنے اپنے انداز میں خراجِ عقیدت پیش کیا۔ ان کے لیے بہت سی دعائیں کیں۔ آج امان اللہ خان  کے بیتے ''امانت علی'' کا انٹرویو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اُن کے ہر جملے میں باپ سے بچھڑ جانے کا غم تھا۔ جنازے پر ''امانت '' ہی کہہ رہے تھے ''اج ساڈا فخر چلا گیا۔'' کاغذ آنسوؤں سے بھر جائے تو کیا مخاطب تک خبر پہنچ جاتی ہے؟ میں اسے یہ بتانا چاہتا ہوں 
کہ وہ کہیں نہیں گیا وہ زندہ ہے ہمارے دلوں میں۔

امان اللہ کو ملنے والے اس پیار کا تجریہ کرنے لگا تو اندازہ ہوا کہ دنیا  میں لوگوں کو خوش کرتے رہو،ان میں مسکراہٹیں بانٹو۔ یہ لوگ بہت دکھی ہیں ان کے دکھ میں شریک ہو جاؤ۔ لوگ تمہیں کھبی نہیں بھولیں گے۔  ان پریشان کن حالات میں جب ہر جانب غربت و افلاس ہے تولگتا ہے واقعی امان اللہ نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے۔ مگر زندگی کا کاررواں چلتا رہے گا۔ اب بھی آنکھیں کھول لینی چاہیئے۔ ہماری زندگیوں میں ایسے کئی کردار ہیں جو نہ ہوں گے تو زندگی کے بڑے اہم سلسلے رک جائیں گے۔ ان کی قدر کر لیں۔ قدرت بار بار موقع نہیں دیتی۔ موت کو موقع نہ دیں کہ آپکو احساس دلائے۔ گھر میں ہر روز خود کو چولہے میں جھونکنے والی ماں کی قدر کر لیں۔ اسے گلے سے لگائیں۔ اسکا ہاتھ بٹائیں۔ دن بھر زمانے کی خاک چھانٹنے والے باپ کو آگے بڑھ کر سلام کر لیں۔ اسکا بوجھ بانٹ لیں۔ کمرے میں قید دادا دادی  سے پوچھیں کہ جوانی کیسے گزرتی ہے؟ تجربہ کسے کہتے ہیں؟ اب تو وقت بھی ہے۔ قدرت نے دنیا بھر کا زاویہ بدل دیا ہے۔ لاک ڈاؤن میں دلوں کے لاک کھولیں۔ یہ والدین جب نہ ہوں گے تو کچھ بھی نہ ہو گا۔  یاد رہے کوئی انتظار نہیں کرتا، کوئی سر پہ ہاتھ نہیں پھیرتا۔ ان کے جانے سے فضاء کی گونج کو کہنا پڑے گا
                                                                                                                                                                
تُو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
 یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے

Our Team

  • M Qasim AliGraphics and Content Manager
  • Asfand Hayat RawanaCritical Analyst/Content Manager
  • Mohsin Ali Writer/Artist