اس مملکتِ خداداد کو اللہ نے بہت سی نوازشات عطا کر رکھی ہیں۔ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں مختلف ثقافتیں اور روایات کا دور دورا ہے۔ مگر اس ملک کو اسی کے ناہنجار حکمرانوں اور اشرافیہ نے پستیوں کی جانب دھکیلنا شرو ع کر دیا ہے۔ رحمَن کی عطا کردہ خوبیوں کا بے جا استعمال کر کے ملک کی جڑوں کو کاٹنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسلام کے افق پر چمکنے والے ستارے "ملک پاکستان" کو گندگی اور کرپشن کا اڈہ بنانے میں قلیدی کردار آج کل اور گزشتہ دور کے 'خود ساختہ لیڈران' کا ہے۔ ہماری قوم کو اللہ نے جیسے دوسری بہت سی خصوصیات سے نوازا ہے اسی طرح ان میں عفو در گزر کی نمایاں خصوصیت بدرجہ غائیت پائی جاتی ہے۔ کہنے کو تو یہ خوبی بڑی اچھی ہے اور یقینا کسی کی غلطی کو درگزر کرنا ایک احسن امر ہے اور آپکے اور ہمارے نبی کریم ﷺ میں بھی یہ خوبی پائی جاتی ہے لیکن اس خوبی کا پاکستان کی عوام کو سنگین خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔ حکمرانوں نے شروع ہی سے نا انصافی کو ترویج دیا ہے اور اشرافیہ کا بے جا تحفظ کیا ہے۔ اس ناانصافی کی چکی میں ہمیشہ تڑپتی، ترستی اور بلکتی عوام پستی ہے۔ اگر کھبی کسی انصاف کو فروغ ملا ہے تو اسکا مکمل نام تحریکِ انصاف ہے جسکا اصل انصاف سے تعلق ابھی تک دریافت نہیں ہو سکا۔ اسی دریافت کے حصول کے لیے فواد چوہدری صاحب کو وزیر سائنس بنایا گیا ہے۔
پاکستان میں وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان ہونے کے لیے شرط ہے کہ آپ یا تو شریف ہوں بلکہ نواز شریف ہوں تو زیادہ بہتر ہے، یا پھر آپ کافی عرصے سے زندہ ہوں۔اس کے علاوہ آپ اگر مجسمہِ روحانیت ہیں اور آپکے تعلقات ہوائی و خلائی چیزوں سے استوار ہیں تو اس سے بہتر کوئی شےء نہیں۔ لیکن واضح رہے کہ یہ تمام شرائط آپکو محض کرسی پر بٹھائیں گی آپ کی چلے گی یا نہیں اس بات کی گارنٹی دینے سے ادارہ قاصر ہے۔ بہرحال ان شرائط کا پورا ہونا اسی طرح لازم قرار پایا ہے جیسے پنجابی فلم میں رقصِ بیہودہ کا ہونا لازم ہے۔ فرق یہ ہے کہ یہی رقص پہلے ۱سال یا چند ماہ باقاعدہ محافل سجا کر کچھ خاص لوگ کرتے ہیں جو کہ محض ایک ڈیمو ہوتا ہے اور پھر یہ رقصِ بیہودہ چار سال یا کچھ کم عرصے کے لیے عوام الناس سے کروایا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ دورانیے کا حتمی تعین ادارہ کرے گا۔ ویسے ہماری پیاری قوم بھی ماہر رقاص ہے۔
رقص کے اس عالمی مقابلے میں اب ایک نئے صاحب بھی ایک نئے نعرے کے ساتھ کوٹھاہائے سلطنت پر آئے ہیں۔ انہوں نے اس رقص کے کاروبار کو مزید جہتوں کو روشناس کروایا ہے۔ ان کا یہ فلسفہ ہے کہ یہ رقص دراصل پروفیشنل لوگوں کا کام ہے سو انہیں سے کروانا چاہئے۔ اس مقصد کے لیے باقاعدہ انہوں نے محافل بھی سجا رکھی ہیں۔ خیر پاکستان کی عوام اور حکمرانوں کی مثال ایک گدھا گاڑی اور اس کے کمہار کی سی ہے۔ حکمران نامی کمہار اس گاڑی پر بیٹھا گدھے کو چھانٹے کی مدد سے کنٹرول کر رہا ہے اور اب اس گاڑی پر قرضوں کا توڑا بار بار لادا جا رہا ہے۔ اب تو دو ہی کام ہو سکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ گدھا گر جائے یا پھر گدھا اگلی دلتی اٹھالے جس میں گدھے کے گرنے کے زیادہ امکانات ہیں۔ بہرحال دونوں صورتوں میں نقصان کمہار کا ہی ہے مگر انکو کون یہ بات سمجھائے؟ سچ یہی ہے کہ یہ حکمران کبھی عوام کو رقاصا بناتے ہیں تو کبھی گدھا۔ قرضوں کا حجم جی ڈی پی کا %78ہو چکا ہے مگر عوام یہ پوچھتے ہیں کہ یہ جی ڈی پی کیا ہے اور اسے کس کے ساتھ کھاتے ہیں؟ مجھے اب یہ تو نہیں پتا کہ اسے کس کے ساتھ کھاتے ہیں مگر یہ ضرور پتا ہے کہ اسے صرف حکمران ہی کھاتے ہیں۔ اللہ تعالی ہماری قوم اور ہمارے پاکستان کے لیے سب بھلا کرے۔ آمین
ُُپاکستان زندہ آباد