!تُو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے

  
٦مارچ،  ۲۰۲۰ء مزاح کی دنیا کا المناک دن تھا۔ دوپہر کے وقت ٹی وی سکرینیں اچانک نوحہ پڑھنے لگی تھیں۔ سب حیران تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ یہ کیسی صدا ہے جو سیدھا دِلوں کو چیر رہی ہے؟ جمعہ کو فضاء میں اللہ اکبر کی گونج منظر میں مزید غم بھرتی چلی گئی۔

حادثہ یہ تھا کہ کامیڈی کی دنیا کا بے تاج بادشاہ ''امان اللہ خان '' راہیِ ملکِ عدم ہو چکا تھا۔ مزاح بکھیرنے والے کو  قدرت نے روح پوش کر دیا تھا۔ تمام سکرینیں اسکے مزاح بھرے جملوں سے گونج رہی تھیں۔ اس کا  وہی معصوم چہرہ جس میں کمال کی دانشمندی تھی۔ اسے دیکھ کر لگتا نہیں تھا کہ یہ شخص ہم سے دور بہت دور جا چکا ہے۔ ہر بڑے فنکار نے اسکو اشکبار آنکھوں سے یاد کیا۔ ''آج مزاح کی موت ہوگئی۔'' سہیل احمد کے یہ الفاظ بات کا خلاصہ تھے۔

کچھ ایسے بد نصیب بھی تھے جو اسکی صلاحیتوں اور شہرت کے محلات کی دیواروں کو نیچا کرنے پر تُلے ہوئے تھے  اس کا قد ماپا جا رہا تھا۔نا جانے کیسے کر رہے تھے یہ سب وہ لوگ۔ مگر یہ تو خاص لوگوں کی بات ہے۔ میں عام لوگوں کا منتظر تھا۔ جو امان اللہ کے مخاطب تھے۔ مگرر اوہو! اسکا مخاطب تو آج بھی غریب ہے۔ اس کا مخاطب تو ابھی بھی دو وقت کی روٹی کو ترستا ہے۔اس عام بندے کی زندگی میں اتنے مسائل ہیں کہ یہ کسی کے جانے کا غم منانے کی فرصت بھی نہیں رکھتا۔ اس سچائی نے امان اللہ کے جانے سے زیادہ افسوس دیا۔

 ایسے ہی لمحات گزرتے گئے۔ اسکی تصاویر آنکھوں کے آگے گردش کرتی گئیں۔ کسی نے ایک ویڈیو انٹرنیٹ پر ڈالی جسے دیکھ کر آنکھوں کے تمام بندھ کھل گئے۔ شہنشاہِ مزاح کی اپنی آواز اور منطر میں اسکی ننھی شرارتیں۔ وہ نوجوان بڑھاپا۔ وہ قسمت کے تھپیڑے اور رب کیعطائیں۔ امان اللہ جیسے اپنی لیے ہی کہہ رہے ہوں

       تُو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے      
یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے

   اپنی پہلی یوٹیوب ویڈیو امان اللہ خاں صاحب پر بنائی۔ بہت سے لوگوں نے دیکھی۔ ہر فرد نے شہنشاہِ مزاح کو اپنے اپنے انداز میں خراجِ عقیدت پیش کیا۔ ان کے لیے بہت سی دعائیں کیں۔ آج امان اللہ خان  کے بیتے ''امانت علی'' کا انٹرویو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اُن کے ہر جملے میں باپ سے بچھڑ جانے کا غم تھا۔ جنازے پر ''امانت '' ہی کہہ رہے تھے ''اج ساڈا فخر چلا گیا۔'' کاغذ آنسوؤں سے بھر جائے تو کیا مخاطب تک خبر پہنچ جاتی ہے؟ میں اسے یہ بتانا چاہتا ہوں 
کہ وہ کہیں نہیں گیا وہ زندہ ہے ہمارے دلوں میں۔

امان اللہ کو ملنے والے اس پیار کا تجریہ کرنے لگا تو اندازہ ہوا کہ دنیا  میں لوگوں کو خوش کرتے رہو،ان میں مسکراہٹیں بانٹو۔ یہ لوگ بہت دکھی ہیں ان کے دکھ میں شریک ہو جاؤ۔ لوگ تمہیں کھبی نہیں بھولیں گے۔  ان پریشان کن حالات میں جب ہر جانب غربت و افلاس ہے تولگتا ہے واقعی امان اللہ نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے۔ مگر زندگی کا کاررواں چلتا رہے گا۔ اب بھی آنکھیں کھول لینی چاہیئے۔ ہماری زندگیوں میں ایسے کئی کردار ہیں جو نہ ہوں گے تو زندگی کے بڑے اہم سلسلے رک جائیں گے۔ ان کی قدر کر لیں۔ قدرت بار بار موقع نہیں دیتی۔ موت کو موقع نہ دیں کہ آپکو احساس دلائے۔ گھر میں ہر روز خود کو چولہے میں جھونکنے والی ماں کی قدر کر لیں۔ اسے گلے سے لگائیں۔ اسکا ہاتھ بٹائیں۔ دن بھر زمانے کی خاک چھانٹنے والے باپ کو آگے بڑھ کر سلام کر لیں۔ اسکا بوجھ بانٹ لیں۔ کمرے میں قید دادا دادی  سے پوچھیں کہ جوانی کیسے گزرتی ہے؟ تجربہ کسے کہتے ہیں؟ اب تو وقت بھی ہے۔ قدرت نے دنیا بھر کا زاویہ بدل دیا ہے۔ لاک ڈاؤن میں دلوں کے لاک کھولیں۔ یہ والدین جب نہ ہوں گے تو کچھ بھی نہ ہو گا۔  یاد رہے کوئی انتظار نہیں کرتا، کوئی سر پہ ہاتھ نہیں پھیرتا۔ ان کے جانے سے فضاء کی گونج کو کہنا پڑے گا
                                                                                                                                                                
تُو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
 یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے

Aleem Arham

Author & Editor

Author is a student of Journalism and a digital media activist.

1 Comments: